بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو اس کا پہلا کام رو کر گویا زندگی کی علامت کو ظاہر کرنا ہوتا ہے‘ کچھ حیرت کی بات نہیں کہ اس کے رونے سے ڈاکٹر اور بچے کے عزیز واقارب حتیٰ کہ ماں تک کو اطمینان ہوجاتا ہے لیکن پھر جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جائے اس کا رونا بے چین کرتا ہے۔ عام طور پر نوجوان بچیاں اور خواتین کسی واقعے یا جذبانی منظر کو دیکھتےہی رونے لگتی ہیں۔ کسی نے کوئی واقعہ سنایا اور درد بھری کہانی پڑھ لیںتو آنسو نکلنے لگتے ہیں‘ البتہ کوئی ناگہانی آن پڑے یا افسردہ کردینے والی بات ہو تو آنکھ بھر آتی ہے اور بسا اوقات کوئی خوشی کی خبر سن کر بھی آنکھوں سے سیلاب امڈ آتا ہے۔ دلچسپ سوال یہ ہے کہ کیا رونا صحت کیلئے مفید بھی ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ رونے میں کوئی قباحت نہیں‘ یہ صحت کیلئے مفید ہے البتہ ہمارے کچھ سماجی روئیے اور دباؤ کی کیفیت عموماً مزاج کا حصہ بن جائے تو ہم کہتے ہیں کہ رونا بزدلی کی علامت ہے۔ یا جب تبدیلی کے سارے امکانات معدوم ہوجائیں ہم تب روتے ہیں اگر آپ کو رونا نہیں آتا تو ضروری نہیں کہ آپ پیاز کاٹنے بیٹھ جائیں اور ٹپ ٹپ آنسو بہائیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ صحت کیلئے وہی آنسو فائدہ مند ہیں جو آپ کی آنکھ سےقدرتی طور پر نکلتے ہیں۔
آئیے آنسوؤں کی طبی حقیقت معلوم کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق آنسوؤں میں ایک بیکٹیریا یا ایسا مادہ ہوتا ہے جو ہمارے اعصابی نظام کو کسی بڑے انتشار سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان کو جب کوئی شدید صدمہ پہنچتا ہے تو اس کے جسم میں دو قسم کے ہارمونز بڑی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں جنہیں سٹریس ہارمونز کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ہارمون ہمیں رونے پر آمادہ کرتے ہیں اور مشکل وقت میں اعصابی نظام کو کسی بڑے خطرے کو شکار ہونے سے بچانے کیلئے انسان رو دیتا ہے اور دراصل آنسو ہمارے جسم کو نقصان دہ عناصر سے محفوظ رکھتے ہیں۔آنسوؤں کے دیگر فوائد میں بلڈپریشر کا نارمل ہوجانا ہے اور دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ اگر جلد پرچھوٹی موٹی خراشیں پڑجائیں تو آنسوؤں کا پانی چہرے کو شاداب کردیتا ہے۔خدانخواستہ اگر کسی کے انتقال پر کوئی انسان رو نہ پائے تو اس کے عصبی نظام میں خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں ایسا شخص شدید نوعیت کے اعصابی و نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آنسو جسم کو نقصان دہ عناصر سے پاک کرتے ہیں اوراہم بات تو یہ بھی ہے کہ جسمانی نظام سے دباؤ پیدا کرنے والے عوامل کو بھی بہالے جاتے ہیں۔ دباؤ پیداکرنے والے یہ عوامل خصوصی طور پر نوعمر بچوں‘ بچیوں کے نازک اعضا کے لیے نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدرتی طور پر بڑوں کی نسبت بچے زیادہ روتے ہیں اور ان کا یہ رونا جسم میں قدرتی دفاعی نظام کو متحرک رکھتا ہے اور داخلی ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھتا ہے۔
تحقیق بتاتی ہے کہ جن بچوں کو رونے میں مشکل پیش آتی ہے وہ اکثر جذباتی دباؤ کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ رونے سےبچے کے پھیپھڑوں کی ورزش ہوجاتی ہے اور جسم کے اندر جھلیوں کی حفاظتی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ نیز اعصابی نظام میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔سائنسدانوں کے مطابق بارہ برس کی عمر تک تو لڑکے لڑکیاں روتے ہی ہیں لیکن اس عمر کے بعد صرف لڑکیاں زیادہ روتی ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ لڑکیوں کے جسم میں پایا جانے والا پروٹیکشن نامی ایک ہارمون ہوتا ہے‘ جو ان کے ذہنی تناؤ اسی راستے سے دور کرتا ہے اور مردوں میں Testosterone نامی مخصوص ہارمون ہوتا ہے جو آنسوؤں کا رقیق مادہ جمع ہونے میں مدافعت کرتا ہے لہٰذا ان کے آنسو کم ہوتے ہیں اور ہم نے سماجی مفروضے بنارکھے ہیں کہ مرد روتے اچھے نہیں لگتے اب سائنس اور طب متفق ہیں کہ مردوں کو رونے سے روکنے والا ہارمون جسم کے مدافعتی نظام کی وجہ سے زیادہ متحرک رہتا ہے۔
آنسو دو قسموں کے ہوتے ہیں‘ پہلی قسم وہ جو صرف ہماری آنکھوں کے گوشے بھگو دیتے ہیں اور دوسری قسم کا تعلق انسانی جذبات سے ہوتا ہے اور یہ سماجی دباؤ اور ردعمل کے طورپر پیدا ہوتے ہیں۔ پہلی قسم بینائی کو درست رکھنے کیلئے ضروری ہے اس کے بغیر ٓآنکھ کی جھلی کو با آسانی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی ہے آنسو پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بڑھاپے میں آنکھیں چمکدار اور روشن نہیں رہتیں۔ آنسو صرف پانی نہیں ہوتے ان میں کاربوہائیڈریٹس اور پروٹین دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ان کے گرد ایک دبیز چکنی سطح ہوتی ہے جو آنسوؤں کو بہاؤ میں مدد دیتی ہے۔ عام حالات میں تقریباً نصف ملی لیٹر آنسو بہانہ کافی ہے۔
آنسوؤں کے غدود کا مادہ تشویش اور ہیجان کے احساس میں کمی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم زیادہ دباؤ‘ڈیپریشن‘ غصہ یا تشویش محسوس کرتے ہیں تو عموماً ہم خود اپنے آپ سے ہمدردی محسوس کرنے لگتے ہیں اور ہمارے آنسو نکلتے ہیں بعد میں ہم خاصا سکون محسوس کرتے ہیں تاہم اس مضمون سے ہم آپ کو خواہ مخواہ رونے کی سبیل نکالنے یا تحریک دینے کی کوشش نہیں کررہے بات بے بات رونا ٹسوے بہانہ کہلاتا ہے جو سماجی رویوں کی ایک معیوب اور ناپسندیدہ شکل ہے اس کا نتیجہ پیچیدہ اعصابی بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
ہمارے مشرقی معاشروں میں خواتین زیادہ جذباتی ہوتی ہیں اور وہ دباؤ کامقابلہ رو کر بھی کرلیتی ہیں جبکہ ہمارے مرد بچوں کو بچپن ہی سے تربیت دی جاتی ہے کہ انہیں سخت چٹانوں جیسی صلاحیتوں کے مالک بننا ہے اور ان کیلئے رونا شرم کی بات ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شعوری طور پر ضبط کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں اور منفی جذبات کو گھونٹتے دباتے رہتےہیں۔ کیاآپ جانتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے منفی جذبات کو دبانا معدے‘ آنتوں کا السر‘ دل کی تکالیف‘ درد شقیقہ اور بعض دیگر اعصابی خرابیوں اور اخلاقی پستی کو جنم دیتا ہے۔ مردوں میں خودکشی کرنے کے رجحان کا ایک سبب جذبات کا مکمل اظہار نہ ہونا بھی ہے۔ اگر جسمانی صحت کیلئے تھوڑا سا رو کر دل ہلکا کرلیا جائے تو اس سے غیرسماجی شخصیت ہونےکا قطعی ثبوت نہیں ملتا۔ غیرسماجی شخصیت ہونے کا قطعی ثبوت نہیں ملتا۔ غیرسماجی رویوں سے انحراف کرکے تھوڑا سارولینا جی کو ہلکا کردینے کیلئے کافی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں